تحریر: مولانا اجمل قاسمی
تمہید
حوزہ نیوز ایجنسی। انیس رمضان المبارک، مسجد کوفہ، نماز فجر، حالت سجدہ، محراب مسجد سے ایک آواز بلند ہوتی ہے، فزت برب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ اس دن دنیا کے شقی ترین شخص نے، دنیا کے متقی ترین شخص پر زہر سے بجھی تلوار سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں حضرت علی علیہ السلام زخمی ہوگئے۔ وہی علی جو کعبے میں پیدا ہوئے اور رسول اللہ کی گود میں پلے بڑھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی راہ میں نچھاور کردی، ان کی شہادت کے لئے بھی خدا نے اپنا ہی گھر چنا۔اپنی شہادت کے وقت بھی آپ لوگوں کی ہدایت سے غافل نہ ہوئے اور وصی رسول اور خلیفہ رسول ہونے کا حق ادا کیا۔ یہاں نہج البلاغہ میں موجود امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کے نام آپ کی وصیت کے بعض نکات کو مختصر وضاحت کے ساتھ پیش کر رہے ہیں ۔
حضرت علیؑ کی وصیت
ضربت کے بعد حسنینؑ شریفین اور ان کے چاہنے والوں کے نام حضرت علی ؑکی وصیت :
تقوای الہی
(أُوصِيكُمَا بِتَقْوَى اللَّهِ)( میں تم دونوں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں)۔
ہر انسان ہمیشہ دوراہے پرہوتا ہے، دو متضاد قوتیں اسے کھینچتی ہیں۔ ایک طرف تو اس کا اخلاقی اور الہی ضمیر ہے جو اسے نیکیوں کی طرف ترغیب دلاتا ہے۔ دوسری طرف نفسانی غریزے، نفس امارہ اورشیطانی وسوسے اسے خواہشات نفسانی کی تکمیل کی دعوت دیتے ہیں۔ عقل و شہوت، نیکی و فساد،پاکی و آلودگی، اس جنگ اورکشمکش میں وہی انسان کامیاب ہوسکتا ہے جو ایمان اور تقوی کے اسلحہ سے لیس ہو۔
یہی تقوی تھا کہ حضرت یوسفؑ عزم مصمّم سے الہیٰ امتحان میں سربلند ہوئے اور پھر عزت و عظمت کی بلندیوں کوچھوا۔ قرآن کریم، حضرت یوسف کی کامیابی کی کلید، دو اہم چیزوں کو قرار دیتا ہے، ایک تقوی اور،دوسرا صبر۔ ارشاد گرامی ہے:" إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَ يَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنينَ " ( اور جو کوئی بھی تقوی اور صبر اختیار کرتا ہے، اللہ نیک اعمال کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے)۔
دوسرے مقام پر ارشاد خداوندی ہے:" ذلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئاتِهِ وَ يُعْظِمْ لَهُ أَجْرا" (یہ حکم خدا ہے جسے تمہاری طرف اس نے نازل کیا ہے اور جو تقویٰ الٰہی اختیار کرتا ہے، خدا اس کی برائیوں کو دور کردیتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ کردیتا ہے)۔
اعمال خیر
(وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ)( اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا)۔
اسلام میں عبادت کا مفہوم کافی وسیع ہے ۔ صرف نماز، روزہ ، حج و زکاۃ یا چند رسمی امور کی ادائیگی یا شکل و صورت کی درستگی ہی عبادت نہیں بلکہ اسلام میں ہر نیکی اورہر خیرکا کام ‘ جواللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کی جائے عبادت ہے۔ خلوصِ نیت سے اللہ کی رضا کیلئے دوسروں کے کام آنا یعنی اللہ تعالیٰ کی ہرمخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا بڑی نیکی ہے۔ یہی انسانی و ایمانی اخوت ہر مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کیلئے وقف کردے اور ہر مخلوق کی مدد و خدمت کرے۔ دوسروں کے کام آنا ، دوسروں کا بوجھ اٹھانا ، بے سہارا کا سہارا بننا وغیرہ اہم ترین نیکیاں ہیں ۔ ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہئے کہ اِن نیکیوں کو اپنی اپنی زندگی کا مقصد بنالیں کیونکہ وہ مسلمان عظیم ہے جس کی زبان‘ ہاتھ پیر اور دوسری توانائی و صلاحیت دوسرے مسلمان کے کام آئے۔
مظلوم کی مدد کرنا
( وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا)( اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا)۔
اسلام محروم، دبے کچلے اور مظلوم طبقات کا نجات دہندہ بن کر سامنے آتا ہے۔ اس نے ان کے مسائل کو ماضی میں بھی کامیابی کے ساتھ حل کیا ہے اور موجودہ دور میں بھی وہ اس کی اہلیت رکھتا ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل جب سرزمینِ عرب میں پیغمبراسلام حضرت محمد ﷺ کی بعثت ہوئی تھی، اس زمانے کا سماج انتشار، بد امنی، لوٹ کھسوٹ، ظلم و جور اور حقوق کی پامالی کی انتہا پر تھا۔ آپ کی تعلیمات کے نتیجے میں امن و امان کا دور دورہ ہوگیا۔ آپ نے تمام طبقات کے حقوق بیان کیے، ان کی ادائی کی تاکید کی اور ان کی حق تلفی کے برے انجام سے ڈرایا۔ آپؐ نے کم زور طبقات کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا، کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی سخت ترین الفاظ میں مذمّت کی۔ اس طرح آپ کی تعلیمات کے نتیجے میں اس عہد کا سماج امن و امان کا گہوارہ بن گیا، ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوگیا اور تمام افراد شیر و شکر ہوکر رہنے لگے۔
نظم و ضبط
(أُوصِيكُمَا وَ جَمِيعَ وَلَدِي وَ أَهْلِي وَ مَنْ بَلَغَهُ كِتَابِي بِتَقْوَى اللَّهِ وَ نَظْمِ أَمْرِكُم) ( میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افرادکواور جن لوگوں تک میرایہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا)۔
انسان کی بقاء و ارتقاء کے لئے مخصوص ضابطوں کی پابندی لازم ہے۔ اسلام اپنے اندر ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتا ہے۔ نبی کریم بھی اس ضابطہ حیات کی تبلیغ و ہدایت کے لئے تشریف لائے۔ آپ نے عملی طور پر ثابت کیا کہ انہوں نے جو نظام زندگی دنیا کو دیا اسی میں دکھی انسانیت کا مداوا ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات پیش کرتا ہے جس پر عمل کرکے قانون کے تحت زندگی بسر کرسکتے ہیں جو ہمیں راہ نجات پیش کرتا اور ہمارے لئے دین و دنیا کی بھلائی کا سبب بن سکتا ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے ہم پر دو قسم کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی۔ ہمارا ہر فعل معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے‘ اگر ہم کوئی برائی کرتے ہیں تو اس کے اثرات دوسروں پر ضرور مرتب ہوں گے‘ اور اگر ہم کوئی اصلاحی کام کرتے ہیں تو اس کے اثرات دوسروں پر ضرور پڑیں گے۔
کوئی قول یا فعل انفرادی طور پر کیا جائے یا اجتماعی طور پر‘ اس کے نتائج معاشرے پر ضرور ظہور پذیر ہوں گے‘ تو ایسے میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کے جذبات و احساسات کا احترام کریں اور ہمارا قول و فعل سوسائٹی کےلئے مفید ثابت ہو۔ اگر ہم معاشرے میں رہتے ہوئے کسی قانون اور ضابطے کا خیال نہیں کرتے تو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ ایک ٹیم کو لے لیجیے‘ ٹیم کے کھلاڑی اگر اپنے کپتان کے حکم کے تابع نہیں ہوتے اور کھیلتے ہوئے پورے نظم و ضبط سے کام نہیں لیتے تو ٹیم کی شکست یقینی ہوگی۔ اس میں کھلاڑیوں کا بھی نقصان ہوگا اور ملک و قوم کے لئے یہ ٹیم بدنامی کا باعث بنے گی۔ قوموں کی بقاء اور ارتقاء کےلئے نظم و ضبط کا ہونا لازمی ہے۔
باہمی اتحاد و اتفاق
( وَ صَلَاحِ ذَاتِ بَيْنِكُمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ جَدَّكُمَا ص يَقُولُ صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلَاةِ وَ الصِّيَامِ)۔
( اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ ﷺم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے)۔
نماز کی پابندی
(وَ اللَّهَ اللَّهَ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّهَا عَمُودُ دِينِكُمْ) ( نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے)۔
نماز دین کا ستون ہے۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ نماز مؤمن کی معراج ہے۔ نماز سرکار اعظمﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز قرب الٰہی جل جلالہ کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالیٰ کی رضا کاباعث ہے۔ نماز جنت کا راستہ ہے۔ نماز پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ نماز برے کاموں سے روکتی ہے۔ نماز مؤمن اور کافر میں فرق ہے۔
نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ شریفہ میں نماز کی اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور نماز کو ضائع کرنے پر سخت وعدیں وارد ہوئی ہیں۔ نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں۔ والدین کو حکم دیا گیا کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اس کی نماز کی نگرانی کریں، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی بھی کریں تاکہ بلوغ سے قبل نماز کا پابند ہوجائے، اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ایک نماز بھی فوت نہ ہو۔
حج کی ادائیگی پر تاکید
(وَ اللَّهَ اللَّهَ فِي بَيْتِ رَبِّكُمْ لَا تُخَلُّوهُ مَا بَقِيتُمْ فَإِنَّهُ إِنْ تُرِكَ لَمْ تُنَاظَرُوا) ( اور اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، جیتے جی اسے خالی نہ چھوڑنا کیونکہ اگریہ خالی چھوڑ دیا گیا توپھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے)۔
حج اسلام کا اہم ترین رکن اور دینی فریضوں میں عظیم ترین فریضہ ہے۔ قرآن مجید ایک مختصر اور پر معنی عبارت میں فرماتا ہے : (وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا) ( اور خدا کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا واجب ہے اگر اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں ۔ اسی آیہ شریفہ کے ذیل میں فرماتے ہیں : (وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ) ( اور جنہوں نے کفر و سرکشی اختیار کی ، بے شک خداوند کریم تمام عالمین سے بے نیاز ہے) ۔
آیہ شریفہ کے اس جملہ میں( وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ) ( خدا کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا واجب ہے) اس تعبیر کے ساتھ کہ جنہوں نے واجب حج کو چھوڑ دیا، کفر کے مرتکب ہوئے ہیں ، اسلام میں اس کی عظیم ترین اہمیت روشن ہو جاتی ہے ۔
توجہ کی بات یہ ہے کہ سورہ مبارکہ اسراء کی آیت کریمہ۷۲ کی تفسیر میں ( وَمَن كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا) حضرت امام صادق ؑسے روایت ہوئی ہے کہ اس آیت کا ایک معنی یہ ہے:( جو اپنے واجب حج میں تاخیر کرے یہاں تک کہ وہ مرجائے وہ قیامت کے دن اندھا ہوگا)۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے : (جو بھی اپنے واجب حج کو کسی عذر کے بغیر ترک کرے وہ قیامت میں یہودی یا نصرانی محشور ہوگا) ؛ چونکہ حضرت امام صادق ؑ کی حدیث میں پڑھتے ہیں :(جو حج اور عمرہ کو بجالاتے ہیں وہ خدا کے مہمان ہیں ۔وہ خدا سے جو چاہتے ہیں وہ انہیں عطا کرتا ہے ۔وہ جو بھی دعا کریں خدا ان کی دعاؤوں کو بھی قبول کرتا ہے اور وہ اگر کسی کی شفاعت کریں ،تو وہ قبول ہوتی ہے۔ اور اگر اسی راہ میں مرجائیں تو پروردگار ان کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے) ۔
صلہ رحم
(وَ عَلَيْكُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَ التَّبَاذُلِ ، وَ إِيَّاكُمْ وَ التَّدَابُرَ وَ التَّقَاطُعَ)(تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرنا۔خبردار ! ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا)۔
اسلام صلہ ٴرحمی ، عزیزوں کی مددو حمایت اور ان سے محبت کر نے کی بہت زیادہ اہمیت کا قا ئل ہے او ر قطع رحمی اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے رابطہ منقطع کر نے کو سختی سے منع کر تا ہے ۔
اسلام میں قطع رحمی کرنے والو ں اور رشتے داری کے پیوندکوتوڑنے والوں کے لئے سخت احکامات ہیں اور احادیث اسلامی بھی ان کی شدید مذمت کر تی ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا : خدا کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مغضوب کون ساعمل ہے؟ تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا: خداسے شرک کرنا۔پوچھا گیا : ا س کے بعد کون سا عمل زیادہ باعث غضب الہی ہے تو فرمایا:قطع رحمی ۔
اسلام نے جو رشتہ داری کی اس قدر حفاظت ونگہداری کی تاکید کی ہے اس کی وجہ یہ ہے، ایک عظیم معاشر ے کا استحکام ترقی ، تکامل اور اسے عظیم تر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کام چھوٹی اکائیوں سے شروع کیا جائے۔ یہ عظمت اقتصادی اور فوجی لحاظ سے درکار ہویا روحانی و اخلاق لحاظ سے ،جب چھوٹی سے چھوٹی اکائیوں میں پیش رفت اورخود بخود اصلاح پذیر ہو جا ئیگا۔
اسلام نے مسلمانو ں کی عظمت کے لئے اس روش سے پورے طور پر فائدہ اٹھایا ہے ۔اس نے اکائیو ں کی اصلاح کاحکم دیا ہے اور عموما ً لوگ ان کی مدد ،اعانت اور انہیں عظمت بخشنے سے روگردانی نہیں کرتے کیونکہ ایسے افراد کی بنیادوں کو تقویت پہنچانے کی نصیحت کرتا ہے، جن کا خون ان کے رگ وریشہ میں گردش کررہا ہے اور جو ایک خاندان کے ارکان ہیں۔واضح ہے کہ جب رشتہ داری کے چھوٹے گروپ کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو بڑا گروپ بھی عظمت حاصل کر ے گا اور ہر لحاظ سے قوی ہو گا ۔وہ حدیث کہ جس میں ہے ’’ صلہ رحمی شہروں کی آباد ی کا باعث ہے ‘‘ غالبا ً اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید
(لَا تَتْرُكُوا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَيُوَلَّى عَلَيْكُمْ [أَشْرَارُكُمْ] شِرَارُكُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ) (دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی)۔
امر یعنی فرمان اور حکم دینا، نہی یعنی روکنا اور منع کرنا، معروف یعنی پہچانا ہوا، نیک، اچھا، منکر یعنی ناپسند، ناروا اوربد.
اصطلاح میں معروف ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو اطاعت پروردگار اور اس سے تقرب اور لوگوں کے ساتھ نیکی کے عنوان سے پہچانی جائے، اور ہر وہ کام جسے اللہ سبحانہ وتعالی نے برا جانا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے اسے منکر کہتے ہیں.
اس وقت دنیا میں مسلمان کس قدر بے راہ روی کا شکار ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، خود گناہوں کی طرف دعوت دے رہے ہیں، بہت سے مسلمان شیطان کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں، سودی کاروبار کو فروغ دیا جارہا ہے، کھیل کود کے ایسے آلات ایجاد کرلئے گئے جو سراسر اسلام کے خلاف اور اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے ہیں، جگہ جگہ سینما گھر، فلمی اڈے، جوئے کے اڈے، ہیروئن منشیات کے اڈے، شراب خانے، گلی، محلوں اور بازاروں میں ٹی وی، وی سی آر اور کیبل کے ذریعہ فحاشی پھیلانے کی کوششیں، اب نت نئے ڈیزائینوں کے کیمرہ والے موبائل، بڑے بڑے سائن بورڈوں میں خواتین کی ننگی تصویریں، شادی بیاہ ودیگر پروگراموں میں مرد وعورتوں کا مخلوط ماحول، اسی طرح کالج یونیورسٹیوں میں لڑکے اور لڑکیوں کا بے تحاشا اختلاط، اس جیسے سینکڑوں اعلانیہ گناہوں میں مسلمان معاشرہ مبتلا ہوگیا ہے، نیز خلاف شرع رسم ورواج کی پابندی، آپس میں ظلم وستم، چوری، ڈاکہ، جھوٹ، غیبت، بہتان باندھنا، الزام تراشی، خود غرضی، بداخلاقی، بدگمانی، بدزبانی، زناکاری، گانا سننا سنانا وغیرہ دیگر بہت ظاہری وباطنی گناہوں میں انفرادی واجتماعی طور پر ابتلائے عام ہے۔
ہر مؤمن بندے کی دوطرح کی ذمہ داریاں بنتی ہیں:
1۔ امر باالمعروف کا فریضہ
ایک توخود اعمال صالحہ بجا لائے، اور دوسروں کو بھی نیک کام کے کرنے کا حکم دے، ہر قسم کے گناہوں سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے، جہاں کہیں گناہ کا کام ہوجائے تو فوری طور پر توبہ استغفار کرے اور گناہوں سے پاک وصاف ہونے کی کوشش کرے۔
2۔ نہی عن المنکر کا فریضہ
اس کے ساتھ ہر مسلمان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ دوسرے مسلمان کو گناہوں سے روکنے کی کوشش کرے۔ یہ کام انفرادی واجتماعی دونوں طرح انجام دیا جانا ضروری ہے۔
عدل و انصاف
(أَلَا لَا تَقْتُلُنَّ بِي إِلَّا قَاتِلِي انْظُرُوا إِذَا أَنَا مِتُّ مِنْ ضَرْبَتِهِ هَذِهِ فَاضْرِبُوهُ ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ وَ لَا تُمَثِّلُوا ، بِالرَّجُلِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ إِيَّاكُمْ وَ الْمُثْلَةَ ، وَ لَوْ بِالْكَلْبِ الْعَقُور)( دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو)۔
عدل و انصاف کا مطلب ہے کسی شحض کے ساتھ بلا افراط و تفریط ایسا معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہو۔ انسان کو عدل سے روکنے کے عادتاً دو سبب ہوا کرتے ہیں۔ ایک اپنے نفس یا اپنے دوستوں، عزیزوں کی طرف داری۔ دوسرے کسی شحص کی دشمنی یا عداوت۔ عدل و انصاف کا ترازو ایسا صحیح اور برابر ہونا چاہئے کہ شدید محبت یا شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلڑوں میں سے کسی پلڑے کو بے انصافی کے وزن سے نہ جھکا سکے۔
حقیقت میں اسلام عدل و انصاف کا ہی دوسرا نام ہے اور کسی بھی نظام کی بقاء کے لئے اس کا عدل و انصاف پر قائم ہونا بہت ضروری ہے۔ دنیا میں حضرت آدمؑ کو خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجنے اور پھر ان کے بعد دوسرے انبیاء ؑ یکے بعد دیگرے بحیثیت خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجتے رہنے ، اور ان کے ساتھ بہت سی کتابیں اور صحیفے نازل کرنے کا اہم مقصد یہی تھا۔